Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 12

وہ اُسے سیدھا ہسپتال لے کر آیا تھا جہاں اب ڈاکٹر اُسے آپریشن رُوم میں لے جا چُکے تھے وہ اضطرابی کیفیت میں گھرا ادھر سے اُدھر ٹہلنے لگا تبھی تین آدمی کوریڈر سے بھاگتے ہوئے اسکے پاس آئے۔ "مُجھے تُم تینوں پر مُکمل اعتماد ہے اس لیے یہ زمعداری تُم لوگوں پر چھوڑ رہا ہوں،ڈاکٹرز کے علاوہ کوئی بندہ اس رُوم میں نہیں جانا چاہئیے،اسلم تُم اندر رُوم میں رہو گئے اور تُم دونوں یہاں باہر،میں پھر سے تاکید کر رہا ہوں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تو منظور ہے مگر جو اندر پڑا زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے اُسکی حفاظت سب سے اولین ہے کیونکہ جو اندر ہے وہ مریام شاہ ہے،سمجھ رہے ہو نہ میری بات۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھیں نہ جانے کس جذبے کے تحت سُرخ ہوئیں تھیں وہ تینوں سر ہلا کر اپنی اپنی ڈیوٹی سنبھال گئے۔ "سیکیورٹی کیمرے۔۔۔۔۔۔۔"اس نے اُن میں سے ایک کو اشارہ کیا وہ سر ہلاتا دائیں جانب چلا گیا تبھی اسکے دماغ میں پرخہ کا خیال آیا تو دو پل کے لیے اپنے لب بھینچ گیا۔ "کال کروں،نہیں مُجھے خُود جانا چاہئیے۔۔۔۔۔"وہ سوچتا باہر کی جانب بڑھا۔

"_________________________________"

وہ تیزی سے چلتا ہوا گھر میں داخل ہوا جہاں عامرہ خاتون اور کبیر امجد رات کی چائے سے لُطف اندوز ہو رہے تھے۔ "ارے جونیجو آ گیا۔۔۔۔۔۔"کبیر امجد کی نگاہ اس پر پڑی تو مُسکرا کر بولے انکے بولنے پر عامرہ خاتون بھی اُسکی طرف دیکھنے لگیں جس کے چہرے کے تاثرات سنجیدہ اور پتھریلے سے تھے۔ "آپ لوگوں کے پاس دس منٹس ہیں جو تیاری کرنی ہے کر لیں پورے دس منٹس کے بعد آپ لوگ باہر گیٹ پر ہو جہاں گاڑی آپ کے لیے گاڑی کھڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا اپنے کمرے کی طرف گیا جبکہ وہ دونوں حیران پریشان ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے پانچ منٹ بعد وہ رُوم سے نکلا اُس کے ہاتھ میں ایک سیاہ رنگ کا چھوٹا سا بیگ تھا۔ "سب خیر تو ہے۔۔۔۔۔۔۔"عامرہ خاتون نے جھجھکتے ہوئے پوچھا ورنہ اُس کے بھینچے ہوئے نقوش کو دیکھتے ہوئے اُس سے کُچھ پوچھنے کی ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی۔ "مریام شاہ کو گولی لگی ہے،ہسپتال میں پڑا موت سے لڑ رہا ہے،دُعا کرئیے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے وہ لب بھینچ گیا جبکہ عامرہ بیگم کا ہاتھ بے ساختہ اُنکے سینے پر پڑا کبیر امجد بھی ساکت رہ گئے۔ "میں لال حویلی جا رہا ہوں،آپ لوگوں کو جو کہا ہے وہی کریں۔۔۔۔۔۔"اُن پر ایک نظر ڈالتا وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔

"__________________________________"

اس وقت وہ بلیک جینز پر سکائے بیلو شرٹ میں بلیک ہُڈ پہنے وہ اُسی شاپنگ پلازہ کی سیکیورٹی رُوم کی طرف بڑھا رہا تھا جہاں دو گھنٹے پہلے اُسامہ اور مریام شاہ شاپنگ کرنے آئے تھے۔ "مُجھے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنی ہے آپ کے پلازہ انٹرس دروازے کی اور پارکنگ کی۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُن کے رُوم میں داخل ہوتا بولا جس پر وہاں موجود تینوں لوگ نہ دکھانے کی وجوہات بتانے لگے اس نے گہرا سانس بھر کر اُس پلازہ کے مالک کو کال ملائی جس پر وہ تینوں اپنی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو کر اُسکو بیٹھنے کا کہنے لگے جبکہ ایک نے اس کی مطلوبہ فوٹیج نکال کر اس کے سامنے کی۔ "گولی سات فیٹ کی دُوری پر سے چلائی گئی اور سامنے سے وار کیا گیا اُونچائی سے نہیں مطلب اُسے شُوٹ کرنے والا اپنی گاڑی میں بیٹھا ہم سے سات فیٹ دور تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"فوٹیج دیکھتے ہوئے اُسکے کانوں میں اُسکی آواز گونجی جس کے کہنے پر وہ یہاں آیا تھا۔اُس نے دھیان سے دیکھا جہاں اُسامہ اور مریام شاہ مختلف شاپنگ بیگز تھامے چلے آ رہے تھے اب اُسکا دھیان وہاں کھڑی گاڑیوں کی طرف تھا تبھی اُسکی نظر اُس بلیک گاڑی پر پڑی جہاں گاڑی کے فرنٹ مرر نیچے کر کے ہاتھ باہر نکال کر نشانہ سیٹ کیا جا رہا تھا نہ تو وہ اُس انسان کا چہرہ دیکھ پایا تھا اور نہ ہی نمبر پلیٹ کیونکہ وہ گاڑی نمبر پلیٹ کے بیغیر تھی۔ "زرا زُوم کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک جگہ پر آ کر وہ چونکا تھا اور پھر اُس چیز کو غور سے دیکھتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ "آغا۔۔۔۔۔۔۔"وہ جو ہاتھ باہر نکلا تھا اُس ہاتھ میں چمکتی انگوٹھی آغا کی تھی جسے وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا اُس نے میسج ٹائپ کر کے کسی کے نمبر پر سینڈ کیا اور وہاں سے چلا گیا۔

"__________________________________"

"آؤ آؤ جونیجو،آج بہت خُوشی کا دن ہے بلکہ جشن منانے کا دن ہے آج تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ لال حویلی آیا تو قادر بلوچ کو بہت خُوش پایا وہ اُسکی وجہ بھی جانتا تھا اس لیے سختی سے لب بھینچے وہ اُسکے خُوشی سے چمکتے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ "تُمہیں پتہ مریام شاہ مر گیا ہے،میرا سب سے بڑا دُشمن جس نے میری زندگی کو عذاب بنا رکھا تھا اب دفعہ ہو گیا میری زندگی سے اس دُنیا سے،ہو گیا میرا بدلہ پُورا،سزا ملی ہے اُس کو بلوچ کے ساتھ مقابلہ کرنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی خُوشی اور جیت کے نشے میں ڈوبا اُس کی آنکھوں سے لپکتے شُعلوں سے بلکل انجان تھا جو اپنی مٹھیاں بھینچ کر بولا۔ "مُبارک ہو آپکو،ایک بازی تو آپ نے اپنے نام کروا لی۔۔۔۔۔۔۔" "ایک نہیں جونیجو ساری بازیاں اب میرے نام ، کیا مریام شاہ کو راستے سے ہٹانا آسان کام تھا نہیں جونیجو،بہت مُشکل دُشمن پیدا ہوا تھا وہ میرا پر اب کوئی فکر کوئی ڈر نہیں ،آج تو دُشمن کی موت کی خُوشی میں جشن ہونا چاہئیے،ناچ گانا شراب شہباب سب کُچھ۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مریام شاہ کی موت کے تصور میں خُوشی سے ترنگ آواز میں بولتا جونیجو کو زہر لگا۔ "جی ضرور جشن تو ضرور ہونا چاہئیے اور ہوگا بھی،پر اُس سے پہلے ایک آستین کے سانپ کو مارنے کا ٹائم آ نکلا ہے۔۔۔۔۔۔۔" "کون،کیا تُم نے ڈھونڈ لیا کون ہے وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ بے چینی سے اسکی طرف لپکا۔ "گُھمن۔۔۔۔۔۔۔"اسکے لبوں سے نکلتے نام پر وہ چونکا۔ "کیا،پر وہ تو تُم نے رکھوایا تھا کہ بہت وفادار ہے۔۔۔۔۔۔۔" "بس پہچاننے میں غلطی ہو گئی سائیں جیسے آپ سے ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔" "خیر ہے بابا،کہاں ہے وہ حرام زادہ اُسے بھی تو اُسکے خیر خواں مریام شاہ تک پہنچائیں۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ کے لہجے میں جیت کا غرور تھا۔ "جی اس لیے آپکے پاس حاضر ہوا ہوں وہ جوئے کے اڈے پر ہے،وہی باندھ کے رکھ ہے اُسے اب آپکو لینے آیا ہوں دراصل میں چاہتا ہوں کہ آپ اُسے اپنے ہاتھوں سے غداری کی سزا دیں۔۔۔۔۔۔۔۔" "ٹھیک ہے بابا چلو،آج تو کہیں بھی لے جاؤ بلوچ منع نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا جسکا چہرہ بے تاثر تھا۔

"_________________________________"

"کیسا لگا سپرائز آغا۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکے مُنہ سے بندھا کپڑا ہٹا کر بولا جو گہرے سانس لیتا بولنے کی کوشش کرنے لگا۔ "یقینناً بہت اچھا لگا ہوگا آخر میرا مہمان بننا کونسی عام بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ چلتا ہوا اس سے کُچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔ "دیکھو۔میرا کوئی۔کوئی قصور نہیں مُجھے تو بس مارنے کو بولا گیا۔۔۔۔۔۔۔" "مریام شاہ پر گولی چلائی تُم نے اور کہہ رہے ہو میرا کوئی قصور نہیں واہ کون نہ مر جائے اس سادگی پر۔۔۔۔۔۔"طنزیہ مُسکرایا "دیکھو ایسا کرنے کو مُجھے کسی نے بولا تھا میری بھلا مریام شاہ سے کیا دُشمنی۔۔۔۔۔۔۔" "جانتا ہوں میں بہت اچھی طرح،تُجھے ایسا کرنے کو حاکم نے بولا تھا،یہ بھی کہ تُم اُس کے بارے کُچھ بھی نہیں جانتے نہ تو تُم نے اُسے دیکھا ہے اور نہ اُسکی اصل آواز سُنی ہے کیونکہ وہ آواز بدل کر بات کرتا ہے،سب جانتا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔"وہ پسٹل ہاتھ میں گُھمانے لگا جسے دیکھ کر آغا کی سانس اُوپر کی اُوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئ آغا ٹارگٹ کلر جو اپنی پینتالیس سالہ زندگی میں کوئی سو کے لگ بھگ انسانوں کی جان لے چُکا تھا جسکا کام ہی پیسے لے کر کام کرنا تھا مگر آج تک وہ پکڑا نہیں گیا تھا پر اس دفعہ نہ صرف پکڑا گیا تھا بلکہ اپنی موت کو بھی دیکھ چُکا تھا اُس کے ہاتھ میں گھومتا ہوا پسٹل۔ "تو پھر،جب تُم سب جانتے ہو تو یہ بھی جانتے ہو کہ میراکوئی قصور نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"خوف سے اُسکی آواز لرزنے لگی۔ "سب جانتا ہوں اس لیے تو تُمہیں تُمہارے کیے کی سزا دے رہا ہوں،حاکم کے ساتھ ڈیل تم نے کی،پچیس لاکھ ایڈوانس کا تم نے لیا،اُن دونوں کا پیچھا تم نے کیا نشانہ اُس پر تم نے سیٹ کیا گولی تُم نے چلائی اور باقی کا سیونٹی فائیو لاکھ تُمہارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوا اور تم پھر بھی کہتے ہو میرا تو قصور نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ کر اسکے قریب آیا اور پسٹل اُسکی کن پٹی پر رکھا۔ "جس پر تُم نے گولی چلائی ہے نہ وہ میرا بھائی ہے اور میں اس کے لیے تُمہیں معاف نہیں کر سکتا آغا،گُڈ بائے۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہی اس نے ٹریلر دبا دیا تھا دوسرے پل ہی وہ کُرسی سمیت ایک طرف لڑھک گیا۔

"_________________________________"

"ایسا تُم کیسے کر سکتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی بات پر حیران ہی رہ گیا۔ "کیوں نہیں کر سکتا،جب وہ لوگ مریام شاہ پر گولی چلا سکتے ہیں تو میں ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو ٹھنڈے لہجے میں اُلٹا پوچھنے لگا۔ "دیکھو اس وقت بلوچ پر ہاتھ ڈالنا ٹھیک نہیں کیونکہ اس سے ہمارا سارا بنا بنایا پلان بگڑ سکتا ہے جو۔۔۔۔۔۔۔۔" "بگڑتا ہے تو بگڑے،مُجھے اب اس بلوچ کی کوئی ضرورت نہیں ہے پہلے بھی بس پرخہ کے لیے چُپ تھا میں جو اب یہاں سے نکل چُکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" "دیکھو تُم جوش سے کام لے رہے ہو۔۔۔۔۔۔"وہ پیار سے اسے سمجھانا چاہتا تھا۔ "یہ تُم کہہ رہے ہو،تُم جانتے ہو نہ جو ہسپتال میں زندگی اور موت سے لڑ رہا ہے وہ میرا کیا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔" "وہ میرا بھی کُچھ لگتا ہے مگر مُجھے اپنے اُن اپنوں کا بھی سوچنا ہے جن کو کتنی بے دردی سے مارا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر جونیجو نے اپنے لب بھینچ لیے۔ "پر میں تُمہیں روکونگا نہیں،جو تُمہارا دل کرے تم وہ کرو۔۔۔۔۔۔۔"وہ گہری سانس بھر کر بولا۔ "تُم کہاں ہو اس وقت۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو نے پوچھا۔ "ہسپتال ہوں۔۔۔۔۔۔" "وہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔۔۔" "ہاں ٹھیک ہے،خطرے کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔" "اور شاہ پیلس۔۔۔۔۔۔"وہ وہاں کی صورتحال جاننا چاہتا تھا۔ "وہاں بھی سب ٹھیک ہے،پرخہ بھابھی بھی،تُمہارے کہے کے مطابق اُنکو لاعلم ہی رکھا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر جونیجو نے الوداعیہ کلمات کہہ کر کال بند کر دی۔

"________-______________________"

بلوچ نے اپنی آنکھیں کھولیں تو خُود کو کسی انجان جگہ پر پا کر چونکا تھا اُس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں وہ ایک خستہ حال کمرہ تھا جس میں سوائے دو کرسیوں کے اور کوئی سامان نہ تھا۔ "یہ کہاں ہوں میں۔۔۔۔۔۔"وہ خُود کو رسیوں میں جکڑا پا کر حیرانگی سے بولا اور دماغ پر زور دینے لگا کہ وہ تو بلوچ کے ساتھ گُھمن کو مارنے جا رہا تھا اُس کے بعد کیا ہوا اُسکا دماغ جنجھا اُٹھا۔ "یہاں کیسے۔۔۔۔۔"وہ سوچنے لگا تبھی دروازہ کُھلا اور کوئی اندر داخل ہوا تھا۔ "جونیجو۔۔۔۔۔۔"آنے والے کو دیکھ بلوچ ٹھٹھکا۔

"___________________________________"

   0
0 Comments